خانقاہ معلیٰ بھیرہ شریف کا یہ طُرّہ امتیاز ہے کہ حضرت امیر السالکین رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر حضور جانشین ضیاءالامت حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی تک تمام سجادہ نشین حضرات نے اپنے اپنے دور ہمایوں میں دین و ملت کی خدمات کے حوالے سے جاندار اور روشن ریکارڈ قائم کئے ہیں وہاں ساتھ ہی ساتھ اللّٰہ کریم کی عطا کردہ نورانی بصیرت سے بہت ذمہ داری کے ساتھ مستقبل کی پیش بندی بھی فرمائی ہے تاکہ علم و عرفان کا یہ کارواں قیادت سے محروم نہ رہے بلکہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رضائے الہی کی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
اسی چیز کے پیش نظر حضور جانشین ضیاءالامت مدظلہ العالی اپنے ولی عہد حضرت صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب حفظ اللہ کو اپنی خصوصی تربیتی توجھات سے نواز رہے ہیں۔اللہ کریم نے حضور غریب نواز مدظلہ العالی کو چار فرزندان ارجمند سے نوازا ہے جن کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب
صاحبزادہ محمد معین الدین شاہ صاحب
صاحبزادہ محمد فرید الدین شاہ صاحب
صاحبزادہ محمد رجب طیب اردگان شاہ صاحب
صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں جو آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین کے ولی عہد ہیں۔
آپ کی ولادت 15 جولائی 1996 کو بھیرہ شریف میں ہوئی۔
آپکی صورت میں جب اللہ کریم نے حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنی دعاؤں کا ماحاصل عطا فرمایا تو پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
حضور ضیاء الامت تشریف لائے بہت پیار سے اپنے پوتے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا تو آنکھوں میں شکرانے کے آنسو تھے اور ساتھ فرما رہے تھے کہ
آج الحمدللہ اللہ کریم نے کرم شاہ کے باغ کو رنگ لگا دیا ہے
خوبصورتی اور چہرے کا جمال تو اس خاندان کی میراث ہے۔حضرت صاحبزادہ صاحب کو اللہ کریم نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ والضحی کی خیرات عطا فرما رکھی ہے۔ اور تعمیر سیرت کے لئے آپ کے والدین کی پر خلوص مساعی جاری ہیں۔
والدین کا حسن تربیت
عربی والے کہتے ہیں
:کل اناء یترشح بما فیہ
ہر برتن سے وہی کچھ نکلتا ہے ہے جو اس میں موجود ہوا کرتا ہے۔آپ کے والد گرامی حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کی آغوش ولایت میں پلے بڑھے تھے اور والدہ ماجدہ حضرت قبلہ سید نذیر حسین شاہ صاحب خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ بھیرہ شریف کی دختر نیک اختر تھی آپ اپنے والد گرامی کے حسنِ ادب و عمل سے پوری طرح فیض یافتہ تھیں آپ نے اپنی اولاد کے دل میں حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ علیہ کے پورے خاندان کی محبت ڈال دی۔صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں میری والدہ ماجدہ چھوٹی عمر میں ہمیں پکڑ پکڑ کے خاندان کے مختلف بزرگ خواتین و حضرات کے پاس بھیجتیں جاؤ فلان سے ملو۔۔۔۔جاؤ فلاں سے مل کے آؤ والدہ ماجدہ کو ہماری تربیت بہت عزیز تھی اسلیے ہماری غلطیوں پر ہماری تادیب بھی فرماتی
:حسن تربیت کے دو واقعات
صاحبزادہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میری 9,10 سال عمر تھی لارنس کالج میں پڑھتا تھا۔وہاں والد گرامی کا معمول مبارک یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز میں ایک ہی دفعہ کتابیں،سٹیشنری کا سامان اور یونیفارم خرید دیتے۔
ایک دفعہ اسی مقصد کے لئے آپ نے مجھے ساتھ لیا مری مال روڈ پہ مختلف دکانوں سے اپنا مطلوبہ سامان خرید رہے تھے آگے ایک ڈرائی فروٹ کی دکان آگئی آپ فروٹ کا ریٹ وغیرہ پوچھنے لگے تو میں نے چپکے سے ایک بادام اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔روڈ پر چلتے چلتے ہمیں تقریبا 20,25 منٹ ہو چکے تھے یعنی ہم اس شاپ سے اتنے دور ہوچکے تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بادام نکال کر اپنی ہتھیلی پہ رکھا آپ نے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ نے اسکے پیسے دیے ہیں؟؟؟؟
میں نے عرض کی نہیں۔۔۔۔یہ سن کر آپ بہت مغموم ہوئے اور آپ نے فرمایا۔۔۔۔بیٹا ہم چور نہیں ہیں،ہم ڈاکو نہیں ہیں،ہم امانت دار لوگوں کی اولاد ہیں،آئندہ کبھی یہ حرکت نہ کرنا پھر آپ پیدل واپس چل پڑے کافی فاصلہ تھا واپس آتے آتے آپ کی ٹانگوں میں درد بھی ہو گیا لیکن آپ اس ڈرائی فروٹ والی شاپ پہ پہنچے اور اسے کہا کہ ہم معافی مانگنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔۔۔۔۔بچے نے آپ سے پوچھے بغیر اور پیسے دیے بغیر یہ ایک بادام اٹھا لیا تھا۔۔۔۔یہ ہم واپس کرنے آئے ہیں آپ مہربانی کرکے ہمیں معاف کر دینا اس نے ہزار بار کہا کہ کوئی بات نہیں لیکن آپ نے فرمایا نہیں بچوں کی شخصی تعمیر میں یہ چیزیں بہت گہرے اثرات رکھتی ہیں اس لیے آپ ہمیں معاف کر دیں آپکا بہت بہت شکریہ۔
2:میرے حفظ کے دور کا واقعہ ہے کہ والدہ صاحبہ کے ساتھ سرگودھا سے واپس آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔روڈ پر ڈاکوؤں نے ناکا لگایا ہوا تھا اور ٹرکوں اور گاڑیوں کو لوٹ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی ہماری گاڑی ان کے قریب پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔تو دو ڈاکو منہ پہ نقاب چڑھائے۔۔۔۔۔۔اسلحہ اٹھائے ہماری طرف دوڑے۔۔۔۔۔۔۔۔بہت پریشانی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔محبوب ڈرائیور نے بہت تیزی کے ساتھ گاڑی پیچھے دوڑائی اور ایک لنک روڈ سے ہم وہاں سے۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے کرم سے نکل آئے۔۔۔۔۔۔جب گھر پہنچے۔۔۔۔۔۔حضور جانشین ضیاءالامت کو ساری بپتا سنائی۔۔۔۔۔۔آپ تو فورا دربار شریف پہ چلے گئے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔مجھے امی جان نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔۔نعیم شاہ۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔وضو کرو۔۔۔اور دو نفل شکرانے کے ادا کرو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک لمحے کے لیے اس بات سے بیزاری کا اظہار کیا لیکن پھر مجھے میرے ضمیر نے ملامت کی کہ اللہ نے تمہیں کتنے خطرناک ترین حالات سے نکالا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں دو سجدوں کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔اٹھ اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ہدیہ سپاس پیش کر۔۔۔۔۔۔میں اگرچہ ابھی نا بالغ بچہ تھا لیکن میری ماں نے ان دو نفلوں کی تلقین میں مجھے بہت کچھ عطا کردیا۔
لارنس کالج کی کچھ یادیں:
لارنس کالج میں اگرچہ ماڈرن سوسائٹی کے بچے پڑھتے تھے اور ان کا لائف سٹائل بھی وہی تھا لیکن صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں اگرچہ میری عمر چھوٹی تھی لیکن میرے والدین کے حسن تربیت سے مجھے معلوم تھا کہ میری لائن ان سب لوگوں سے جدا ہے اس لیے میں نے وہاں بھی اپنا خاندانی تشخص گم نہیں ہونے دیا۔
اپنا انداز زمانے سے جدا رکھتے ہیں
ہم تو محبوب بھی محبوب خدا رکھتے ہیں۔
:دو باتیں شکر نباتیں
فرماتے ہیں کہ ہمارے والدین نے دو باتیں ہمیں،سب،بہن بھائیوں کو اچھے طریقے سے ازبر کرائی ہوئی ہیں۔
سادات کا ادب
اساتذہ کرام کا ادب
کلاس فیلوز میں اگرچہ زیادہ تکلف نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی سید کلاس فیلو بھی ہے۔۔۔۔۔تو میں نے ہمیشہ دل سے اس کا احترام کیا ہے الحمدللہ
یہ دل بھی حسینی ہے یہ جاں بھی حسینی ہے
الحمد کہ اپنا تو ایمان بھی حسینی ہے
نسلوں سے غلامی کا اعزاز یہ حاصل ہے
میرا باپ حسینی ہے اور ماں بھی حسینی ہے
ہمارے کالج میں اساتذہ کے ادب کی کوئی فضا نہیں تھی لیکن میں نے ہمیشہ اپنے اساتذہ کا احترام کیا ہے اسی وجہ سے میرے اساتذہ بھی میرے اوپر بہت مہربان تھے۔